ایک بات میں لکھ رہا ہوں اس کو پڑھ کر سات دفعہ گن کر اس کو سوچیں کہ آخر ’’بیمار ہونے کے بعد سادہ غذائیں ہم کیوں کھاتے ہیں؟‘‘ لہٰذا میری درخواست ہے عمل بھی کریں اور بے چینی سے غور بھی کریں ان اجناس کو پسوا کر ان کاآٹا بنوائیں آٹا بہت باریک نہ ہو
قارئین! آپ کیلئے قیمتی موتی چن کر لاتا ہوں اور چھپاتا نہیں‘ آپ بھی سخی بنیں اور ضرور لکھیں (ایڈیٹر حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)
موٹاپا‘ جوڑوں کا درد‘ ہاضم کی خرابی‘ گیس‘ تبخیر‘ تیزابیت‘ کولیسٹرول‘ کریٹنن اور ہائی بلڈپریشر کیوں ہوا؟ غذائیں بدلیں‘ دوائیں بدلیں‘ وہ کیسے؟ پہلے سادہ غذائیں ہوتی تھیں اور اگر بیمار ہوئے تو سادہ جڑی بوٹیاں اور مختصر سے ٹوٹکے استعمال کیے۔فاسٹ فوڈز‘ بیکری‘ جھاگ دار مشروبات یعنی سافٹ ڈرنک‘ بھنی تلی‘ مصالحہ دار اور باربی کیو ان چیزوں نے ہماری زندگی کو موٹاپے‘ اعصاب اور پٹھوں کا کھچاؤ ‘جسمانی کمزوری‘ ذہنی تناؤ‘ جوڑوں کا درد‘ کولیسٹرول‘ قبض‘ پیٹ کا بڑھنا‘ معدے کی گیس تبخیر میں مبتلا کردیا۔ انہی غذاؤں نے گھریلو زندگی کو انتہائی متاثر کیا وہ کیسے؟ بس صرف اشارہ کرتے ہوئے میں اپنے قلم کو جاری رکھوں گا کہ ان مصنوعی غذاؤں نے مرد سے اس کی صلاحیتیں چھین لی ہیں۔ یوںجھگڑے اور نوبت یا طلاقوں تک یا پھرروز روز کی نوک جھونک‘ نفرت اور مستقل مزاجی سے لڑائی جھگڑا ‘ مقابلے کی انتہا پھر دل کی نفرتیں سو راستے بناتی ہیں۔ ایک راستہ کہ مجھ پر جادو ہوگیا‘ دوسرا راستہ میں نفسیاتی مریض بن گیااور تیسرا راستہ کہ سارے میرے دشمن ہیں۔ میں جادو کو مانتا ہوں‘ میں جنات کو مانتا ہوں لیکن کیا گھریلو نفرتیں جو نفسیاتی طور پر دل میں گھر کرچکی ہوتی ہیں وہ بھی جادو ہی ہوتی ہیں‘ ہرگز نہیں! لہٰذا غذاؤں کا اثر زندگیوں پر پڑتا ہے‘ عدم برداشت کا معاشرہ میں بڑھ جانا غصہ‘ ٹینشن‘ سڑکوںکا بلاک کرنا‘ قتل‘ خون ریزی جس معاشرے میں زیادہ ہو وہ معاشرہ قانون‘ سکیورٹی ضرور بنائے لیکن اس سے کہیں زیادہ اپنی غذاؤں اور دسترخوانوں پرنظر رکھے۔ بقول ایک یورپی ماہر کے جس نے ساری زندگی غذاؤں پر ریسرچ کی ہے کہ اگر اپنی زندگی کو اعتدال پرلانا ہے‘ اپنے معاشرے کو عدل وانصاف ‘ پرامن بنانا ہے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے جوان صرف اپنی بیوی کو جیون ساتھی بنائیں‘ سوچیں‘ دماغ اور دل پاکیزہ ہو‘ پرامن زندگی‘ بہتر چلن تو اس کیلئے وٹامنز کھانے‘ ٹانک لینے‘ بہت بڑی جاگنگ اور واکنگ کرنے سے کہیں زیادہ اپنے دسترخوان پر نظر ڈالیں۔ آئیے! وہ نبوی ﷺسادہ غذائیں جن کو کھا کر عالم فتح ہوا‘ خیبر فتح ہوا‘ جن کو کھاکر مسلمان پوری دنیا کے حکمران بنے اور پوری دنیا کا معاشرہ ان کے سامنے زیرہوا اس معاشرے کی غذاؤں کو ذرا ٹھنڈے دل سےنوٹ کریں‘ وہ باجرہ تھا‘ وہ جَو تھے‘ وہ سادہ غذائیں تھیں۔ ایک بات میں لکھ رہا ہوں اس کو پڑھ کر سات دفعہ گن کر اس کو سوچیں کہ آخر ’’بیمار ہونے کے بعد سادہ غذائیں ہم کیوں کھاتے ہیں؟‘‘ لہٰذا میری درخواست ہے عمل بھی کریں اور بے چینی سے غور بھی کریں ان اجناس کو پسوا کر ان کاآٹا بنوائیں‘ آٹا بہت باریک نہ ہو اس کی کھیر بنا کر کھائیں‘ اس کا دلیہ بنا کر اس کی روٹی بنا کر حتیٰ کہ اسی کو ہلکے گھی میں ہلکا بھون کر اور گوشت کے شوربے میں پکا کر کھائیں اور سوپ کے طور پر پئیں۔ گوشت کی مقدار کم ہو۔ آپ ہلکے مصالحے ڈال سکتے ہیں پھر دیکھیں کہ آپ کا جسم فٹنس کی طرف پہلا قدم بڑھاتا ہے‘ آپ کا دماغ یادداشت کی طرف تیزی سےسفر کرتا ہے‘ آپ کی نظر روشنی کا سفر اندھیروں سے نکل کرکرے گی۔ آپ کی طبیعت کا بوجھ ہر وقت کی مایوسی اور ہروقت کی ذہنی الجھن آپ کو اطمینان کی طرف لے کر جائے گی۔ آپ کے جوڑ فٹ ہوں گے‘ آپ کی جوانی سدا بہار ہوگی۔ آپ کا معدہ آج سے ڈیڑھ ہزار سال پرانے طاقتور لوگوں جیسا ہوگا۔ کولیسٹرول کا تو پتہ ہی نہ پوچھیں‘کریٹنن تو ویسے ہی گم ہوجائے گا۔ گندی ڈکاریں‘ پیٹ کا پھولنا راستہ بھول جائیں گی۔ موٹاپا جس نے آپ کو ستایا ہوا ہے بائے بائے! جی ہاں! اس کو خیر آباد کہیں زندگی پرلطف‘ سانسیں خوشبودار‘ آہٹیں پرعزم‘ ہر اٹھنے والا قدم آپ کی زندگی کو سدابہار کردے گا۔ آئیے! اس آٹے کے ساتھ دوستی لگائیں۔ یہ چھ اجناس آپ کو تین بیماریوں سے نہیں تین سو بیماریوں سے دور کرکے آپ کی زندگی کو بہت اچھی اور پرسکون بنادے گا۔ کیا خیال ہے؟ آپ کو ابھی جلدی سے وہ اجناس نہ بتائیں۔ قلم اٹھائیں اور لکھیں ‘دیکھئے !صاف صاف لکھئے گا‘ کہیں جلدی نہ کیجئے‘ لکھنا کیا ہےا ور لکھ کیا بیٹھیں اور پھر ایڈیٹر کو شکایت کریں کہ فائدہ نہیں ہوا اور ہاں جلدی نہ کیجئے گا کچھ عرصہ استعمال بھی ضرور کیجئے گا۔ پھر آپ شکوے شکایت کے خط لکھیں ہمیں فائدہ تھوڑا ہوا اور اچانک ایک بات مجھے اور یاد بھی آئی کہ بچوں کو بھی کھلانا‘ لیکن ایک بات مجھے الجھا رہی ہے آپ نے تو انہیں چاکلیٹ‘ بسکٹ‘ بیکری‘ اور برگر کا عادی بنایا ہوا ہے وہ کیسے کھائیں گے؟ منہ بسوریں گے اوں اوں کریں گے اور اصل میں وہ دوسرے لفظوں میں اپنی والدہ کی شکایت کررہے ہیں‘ امی! آپ نےہمیں فطرت کا عادی نہیں بنایا‘ اگر وہ منہ نہ بسوریں اوں اوں نہ کریں‘ نہ نہ کریں تو سمجھ لیں‘ ماں نے انہیں فطرت سے شناسائی دی ہے۔ تو پھر لکھواؤں کیا؟ اگر میں انکار کردوں تو۔ لیکن نہیں مجھے آپ سے محبت ہے اچھا لکھیے گا:۔
کاغذ اٹھالیا‘ قلم کھول لیا‘ دیکھیں اس میں سیاہی ہے بھی سہی‘ ہاں ہاں ٹھیک ہے! سیاہی ہے‘ کاغذ صاف ہے اس پر اور کچھ نہیں لکھاہوا‘ ٹھیک ہےاب لکھیں: باجرہ ایک کلو‘ جو ایک کلو‘ کالا چنادیسی کچا ایک کلو‘ دال مونگ ثابت چھلکے والی( سبز چھلکوں والی یا سیاہ چھلکوں والی) ایک کلو‘ لوبیا ثابت ایک کلو‘ گندم پانچ کلو۔ بس یہی سستی چیزیں ہیں۔ اب بتائیں آپ ایسے پریشان ہورہے تھے کہ نامعلوم ایڈیٹر ہمیںکتنی مہنگی چیزیں بتائے گا۔ بس ابھی جائیںاور یہ چیزیں لیں کنکر پتھر صاف کریں نگرانی میں پسوائیں اور بس۔۔۔!!! ڈیڑھ ہزار سال پرانی زندگی کا لطف اٹھائیں۔ آیا نا مزہ۔۔!!! فطرت کا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں